کہیں رُوپ رُوپ دیئے بُجھے کہیں زُلف سایہ بچھا لیا
بڑی تِیرگی تھی ترے نگر سو میں اپنا گھر ہی جلا لیا

مرے Ø+رف Ø+رف تھے آیئنے کہ جو عکس آیا ٹھہر گیا
مری چشمِ خواب کے معجزے اُسے رتجگوں میں جگا لیا

مری زندگی بھی عجیب تھی، مری موت مجھ سے قریب تھی
مرے چارہ گر بڑی دُور تھے سو میں اپنا لاشہ اُٹھا لیا

کبھی مے و مینا میں گُم رہا کبھی ذات نشّے میں خُم رہا
مری عمرِ ہجر طویل تھی اسے جاگتے میں سُلا لیا

یہی بام و در کبھی خواب تھے یہی بام و در کہ عذاب ہیں
وہ جو میرے گھر میں بسا نہیں اسے چشمِ تر میں بسا لیا

تری کائناتوں کے درمیاں کئی روپ رنگ تھے ضَو فشاں
جسے چاہا خود سے جدا کیا جسے چاہا خود میں ملا لیا

کوئی لب ہلے تو دیئے جلے جو نویدِ صبØ+ِ وصال تھے
کو ئی نور جی میں بکھر گیا کسی تِیرگی کو بجھا لیا

کوئی لامکانی طلسم تھا جو سبھی زمانوں کا اِسم تھا
وہ ہر ایک شے پہ جو بار تھا مرے عشق نے وہ اُٹھا لیا

مظّفر منصور.